یونان کے ایک مصور نے تصویر بنائی۔س میں ایک آدمی کو انگور کا خوشہ پکڑے دکھایا گیا تھا۔ اس نے تصویر کو بازار میں ایک جگہ لٹکا دیا۔ ہر کوئی تصویر کو دیکھتا اور اس کی تعریف کرتا۔ مصور کے کچھ دوست اس سے ملے اورمبارک باد دیتے ہوئے کہنے لگے کہ تم نے انگوروں کا خوشہ اس قدر زبردستبنایا ہے کہ چڑیاں آتی ہیں اور اسے اصل سمجھ کر چونچ مارتی ہیں۔
مصور خوش ہونے کے بجائے افسردہ ہوگیا۔ کہنے لگا: اس کا مطلب ہے کہ آدمیکو بنانے میں مجھ سے غلطی ہوگئی۔ ورنہ چڑیاں اگر آدمی کو بھی اصل سمجھتیںتو اس کے ڈر سے انگوروں پر چونچ مارنے کی جرات نہ کرتیں۔
مصور نے وہ تصویر اتاری اور ایک دوسری تصویر بنائی۔ اس تصویر میں بھی ایکآدمی انگور کا خوشہ لیے کھڑا تھا۔ انگور کا خوشہ دوبارہ اس قدر شان داربنایا گیا تھا کہ چڑیاں اس کو دیکھ کر اس کے پاس آتیں، مگر اب انہیں چونچمارنے کی ہمت نہ ہوتی۔۔۔۔۔ جو آدمی انگور کا خوشہ لیے ہوئے تھا، اس کیآنکھوں میں اس قدر غصہ بھرا تھا کہ چڑیاں اسے دیکھتے ہی ڈر کر اڑ جاتیں۔
دنیا میں اعلی مقام انہی لوگوں نے حاصل کیا ہے جنہوں نے خود اپنے آپ پرتنقید کی، اپنا محاسبہ خود کیا۔ ویسے بھی جب دوسرا تنقید کرتا ہے، نقصنکالتا ہے تو انسان ردعمل کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان اپنے اوپر خود تنقیدکرے، اپنی غلطیاں خود نکالے تو جتنا زور اور جتنا وقت وہ دوسروں سے اسبحث میں لگائے کہ وہ بالکل صحیح ہے، اس میں کوئی نقص نہیں ہے، وہی وقت،وہی کوشش وہ اپنے آپ کو درست کرنے اور اپنی کارکردگی کو بہتر کرنے میںلگا سکتا ہے۔ قرآن کی یہ بات کس قدر حقیقت پر مبنی ہے کہ کامیاب ہوگیا وہجس نے اپنے آپ کو ہر اعتبار سے پاک کیا