Like this on Facebook: |
Monday, October 7, 2013
Urdu kahani, sachi kahanian, sache wakiat, sacha wakia, bandron ka khel
سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے ایک بندر کو بدل دیا جائے۔ پہلی چیز جو نئے آنے والے بندر نے کی وہ سیڑھی پر چڑھنا تھا لیکن فورا ہی اسے دوسرے بندروں نے مارنا شروع کر دیا - کئی دفعہ پٹنے کے بعد نئے آنے والے بندر نے ہمیشہ کے لئے طے کر لیا کہ وہ سیڑھی پر نہیں چڑھے گا۔ لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ آخر کیوں مارا جاتا ہے۔
سائنسدانوں نے ایک اور بندر تبدیل کیا اور اسکا بھی یہی حشر ہوا -اور مزے کہ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تبدیل ہونے والا بندر بھی اسے مارنے والوں میں شامل تھا - اسکے بعد تیسرے بندر کو تبدیل کیا گیا اور اسکا بھی یہی حشر (پٹائی) ہوا - یہاں تک کہ سارے پرانے بندر نئے بندر سے تبدیل ہو گئے اور سب کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہا -اب پِنجرے میں صرف نئے بندر رہ گئے جس پر کبھی سائنسدانوں نے بارش نہیں برسائی لیکن پھر بھی وہ سیڑھی پر چڑھنے والے بندر کی پٹائی کرتے -اگر یہ ممکن ہوتا کہ بندروں سے پوچھا جائے کہ تم کیوں سیڑھی پر چڑھنے والے بندر کو مارتے ہو یقیناً وہ جواب دینگیں کہ ہمیں نہیں معلوم ؟ ہم نے تو سب کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے
اس بات کو ضرور دوسروں کو سمجھائيے تاکہ وہ بھی اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم اپنی زندگی کیوں ایسے گزار رہے ہیں جیسا کہ وہ گزر رہی ہے ہم وہ کیوں کرنے لگ جاتے ہیں جو دوسروں کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کیا ہمارے پاس زندگی گزارنے کے لیے کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے کیا ہمارے پاس ہدایت کا سر چشمہ قرآن مجید موجود نہیں کیا اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ہر معاملے میں ہماری رہنمائی نہیں فرمائی۔
تو کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں اور کسی عمل کو کرنے کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ سب ہی کر رہے ہیں ہم نے کرلیا تو کیا ہوگیا ۔"
Urdu kahani, sachi kahanian, sache wakiat, sacha wakia
اس کی حیرت اس وقت دو چند ہوگئی جب اس نے دیکھا کہ جیسے ہی وہ ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھاتی وہ مسافر بھی ایک بسکٹ اٹھا لیتا۔ غصے سے بے حال وہ اپنی جھنجھلاہٹ پر بمشکل قابو رکھ پا رہی تھی۔
جب ڈبے میں آخری بسکٹ آن بچا تو اب اس کے دل میں یہ بات جاننے کی شدید حسرت تھی کہ اب یہ بد تمیز اور بد اخلاق شخص کیا کرے گا، کیا وہ اب بھی اس آخری بسکٹ کی طرف ہاتھ بڑھائے گا یا یہ آخری بسکٹ اس کیلئے رکھ چھوڑے گا؟تاہم اس کی حیرت اپنے عروج پر جا پہنچی جب مسافر نے اس آخریبسکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھا خود اٹھا لیا اور آدھا اس کیلئے چھوڑ دیا تھا۔ خاتون کیلئے اس سے بڑھ کراہانت کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ آدھے بسکٹ کو وہیں ڈبے میں چھوڑ کر، کتاب کو بند کرتے ہوئے، اٹھ کر غصے سے پاؤں پٹختی امیگریشن سے ہوتی ہوئی جہاز کی طرف چل پڑی۔
جہاز میں کرسی پر بیٹھ کر اپنے دستی تھیلے کو اس میں سےعینک نکالنے کیلئے کھولا تو یہ دیکھ کر حیرت سے اس کی جان ہی نکل گئی کہ اس کا خریدا ہوا بسکٹ کا ڈبہ تو جوں کا توں تھیلے میں بند رکھا ہوا تھا۔ندامت اور شرمندگی سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔ اسے اب پتہ چل رہا تھا کہ وہ ہوائی اڈے پر بسکٹ اس شخص کے ڈبے سے نکال کر کھاتی رہی تھی۔
اب دیر سے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ شخص کس قدر ایک مہذب اور رحمدل انسان تھا، جس نے کسی شکوے اور ہچکچاہٹ کے بغیر اپنے ڈبے سے اسے بسکٹ کھانے کو دیئے تھے۔ وہ جس قدر اس موضوع پر سوچتی اسی قدر شرمدنگیاور خجالت بڑھتی جا رہی تھی۔
اس شرمندگی اور خجالت کا اب مداوا کیا ہو سکتا تھا، اس کے پاس تو اتنا وقت نہ تھا کہ جا کر اس آدمی کو ڈھونڈھے، اس سے معذرت کرے، اپنی بے ذوقی اور بے ادبی کی معافی مانگے، یا اس کی اعلٰی قدری کا شکریہ ادا کرے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ضروری نہیں کہ آپ کی قائم کی ہوئی رائے ہی ٹھیک ہو
Subscribe to:
Posts (Atom)