اس کی حیرت اس وقت دو چند ہوگئی جب اس نے دیکھا کہ جیسے ہی وہ ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھاتی وہ مسافر بھی ایک بسکٹ اٹھا لیتا۔ غصے سے بے حال وہ اپنی جھنجھلاہٹ پر بمشکل قابو رکھ پا رہی تھی۔
جب ڈبے میں آخری بسکٹ آن بچا تو اب اس کے دل میں یہ بات جاننے کی شدید حسرت تھی کہ اب یہ بد تمیز اور بد اخلاق شخص کیا کرے گا، کیا وہ اب بھی اس آخری بسکٹ کی طرف ہاتھ بڑھائے گا یا یہ آخری بسکٹ اس کیلئے رکھ چھوڑے گا؟تاہم اس کی حیرت اپنے عروج پر جا پہنچی جب مسافر نے اس آخریبسکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھا خود اٹھا لیا اور آدھا اس کیلئے چھوڑ دیا تھا۔ خاتون کیلئے اس سے بڑھ کراہانت کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ آدھے بسکٹ کو وہیں ڈبے میں چھوڑ کر، کتاب کو بند کرتے ہوئے، اٹھ کر غصے سے پاؤں پٹختی امیگریشن سے ہوتی ہوئی جہاز کی طرف چل پڑی۔
جہاز میں کرسی پر بیٹھ کر اپنے دستی تھیلے کو اس میں سےعینک نکالنے کیلئے کھولا تو یہ دیکھ کر حیرت سے اس کی جان ہی نکل گئی کہ اس کا خریدا ہوا بسکٹ کا ڈبہ تو جوں کا توں تھیلے میں بند رکھا ہوا تھا۔ندامت اور شرمندگی سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔ اسے اب پتہ چل رہا تھا کہ وہ ہوائی اڈے پر بسکٹ اس شخص کے ڈبے سے نکال کر کھاتی رہی تھی۔
اب دیر سے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ شخص کس قدر ایک مہذب اور رحمدل انسان تھا، جس نے کسی شکوے اور ہچکچاہٹ کے بغیر اپنے ڈبے سے اسے بسکٹ کھانے کو دیئے تھے۔ وہ جس قدر اس موضوع پر سوچتی اسی قدر شرمدنگیاور خجالت بڑھتی جا رہی تھی۔
اس شرمندگی اور خجالت کا اب مداوا کیا ہو سکتا تھا، اس کے پاس تو اتنا وقت نہ تھا کہ جا کر اس آدمی کو ڈھونڈھے، اس سے معذرت کرے، اپنی بے ذوقی اور بے ادبی کی معافی مانگے، یا اس کی اعلٰی قدری کا شکریہ ادا کرے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ضروری نہیں کہ آپ کی قائم کی ہوئی رائے ہی ٹھیک ہو