سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے ایک بندر کو بدل دیا جائے۔ پہلی چیز جو نئے آنے والے بندر نے کی وہ سیڑھی پر چڑھنا تھا لیکن فورا ہی اسے دوسرے بندروں نے مارنا شروع کر دیا - کئی دفعہ پٹنے کے بعد نئے آنے والے بندر نے ہمیشہ کے لئے طے کر لیا کہ وہ سیڑھی پر نہیں چڑھے گا۔ لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ آخر کیوں مارا جاتا ہے۔
سائنسدانوں نے ایک اور بندر تبدیل کیا اور اسکا بھی یہی حشر ہوا -اور مزے کہ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تبدیل ہونے والا بندر بھی اسے مارنے والوں میں شامل تھا - اسکے بعد تیسرے بندر کو تبدیل کیا گیا اور اسکا بھی یہی حشر (پٹائی) ہوا - یہاں تک کہ سارے پرانے بندر نئے بندر سے تبدیل ہو گئے اور سب کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہا -اب پِنجرے میں صرف نئے بندر رہ گئے جس پر کبھی سائنسدانوں نے بارش نہیں برسائی لیکن پھر بھی وہ سیڑھی پر چڑھنے والے بندر کی پٹائی کرتے -اگر یہ ممکن ہوتا کہ بندروں سے پوچھا جائے کہ تم کیوں سیڑھی پر چڑھنے والے بندر کو مارتے ہو یقیناً وہ جواب دینگیں کہ ہمیں نہیں معلوم ؟ ہم نے تو سب کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے
اس بات کو ضرور دوسروں کو سمجھائيے تاکہ وہ بھی اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم اپنی زندگی کیوں ایسے گزار رہے ہیں جیسا کہ وہ گزر رہی ہے ہم وہ کیوں کرنے لگ جاتے ہیں جو دوسروں کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کیا ہمارے پاس زندگی گزارنے کے لیے کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے کیا ہمارے پاس ہدایت کا سر چشمہ قرآن مجید موجود نہیں کیا اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ہر معاملے میں ہماری رہنمائی نہیں فرمائی۔
تو کیا وجہ ہے کہ ہم لوگ بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں اور کسی عمل کو کرنے کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ سب ہی کر رہے ہیں ہم نے کرلیا تو کیا ہوگیا ۔"